Select Language


رئیس العارفین شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاؒ (متوفی ۱۴۰۲ھ)

قطب عالم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا صاحب نوراللہ مرقدہ کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں، اس لیے کہ آپ کی خدماتِ جلیلہ سے خواص ہی نہیں عوام بھی فیضیاب ہورہے ہیں، آپ کی کتاب فضائلِ اعمال دنیا کے ہر خطہ میں پڑھی جاتی ہے۔

ولادت باسعادت:

حضرت شیخ الحدیثؒ کی ولادت ۱۱؍رمضان المبارک ۱۳۱۵ھ کی رات میں گیارہ بجے موضع کاندھلہ میں ہوئی، آپ کے دادا مولانا محمد اسماعیل صاحب اس وقت دہلی نظام الدین میں بنگلہ والی مسجد میں بچوں کو قرآن پڑھاتے تھے اور ایک متفقہ شخصیت کے مالک تھے، جب پوتے کی پیدائش کی خبرسنی تو برجستہ زبان سے نکلا کہ ’’ہمارا بدل آگیا‘‘ اور پھر اسی سال شوال میں آپ کا انتقال ہوگیا۔

تعلیم کا آغاز:

سات سال کی عمر میں خاندانی روایت کے مطابق حفظ قرآن کا سلسلہ شروع ہوا، شیخ کے والد کا تعلیمی ڈھنگ نرالا تھا، ایک صفحہ سبق دے دیتے، فرماتے اس کو ۱۰۰؍مرتبہ پڑھ لو پھر پورے دن چھٹی اور بقیہ اردو کے دینی رسائل، بہشتی زیور اور فارسی کی ابتدائی کتابیں اپنے چچا حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ سے گنگوہ میں پڑھیں، عربی تعلیم کا آغاز حضرت گنگوہی کی وفات کے بعد آپ کے والد کے سہارنپور منتقل ہوجانے کے بعد وہیں جاکر ہوا، نحو وصرف کی درسی متداول کتابیں خاص طرز اور ترمیم واضافے کے ساتھ پڑھیں والد محترم ہر سال کے لیے اپنے اعتبار سے کتابیں منتخب فرمادیتے تھے، کتب فقہ خود والد محترم حضرت مولانا محمدیحییٰ صاحب سے اور کچھ دیگر اساتذہ سے پڑھیں اور ۱۳۳۳ھ میں فضیلت فی الحدیث سے فراغت حاصل کی۔ مولانا خلیل احمد صاحب نے (جو آپ کے والد کے دوست تھے) حجاز سے واپسی پر حکم فرمایاکہ بخاری شریف اور ترمذی شریف دوبارہ مجھ سے پڑھو، آپ نے پورے انہماک ومحنت کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے مشفق استاذ کی نظر عنایت آپ کی طرف متوجہ ہوگئی اور ’’بذل المجہود فی حل ابی داؤد‘‘ جیسی اہم کتاب کی تصنیف میں آپ کو شامل فرمایا۔

۱۳۳۴ھ میں آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا، اس سے بیٹے کو جو صدمہ ہونا تھا وہ ظاہر ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے توکل واستغنا اور ثبات قدمی سے آپ کو وافرحصہ عطا فرمایاتھا، اس لیے نازک سے نازک حالات میں بھی آپ کے پایۂ استقلال میں ذرا لغزش نہ آتی، انتقال کے وقت آپ کے والد کافی مقروض تھے، اب ادائیگیٔ قرض کا معاملہ آپ کے لیے سب سے نازک تھا کیوںکہ آپ کامشاہرہ صرف پندرہ روپے تھا، دوسری جگہوں خصوصاً حیدرآباد وبنگلہ دیش سے بہت اچھی اچھی ملازمتوں کے لیے بہت اصرار ہوا، لیکن آپ نے کسی طرف مطلق توجہ نہ کی، توکل واستغنا کے ساتھ درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ آہستہ آہستہ تمام حالات درست ہوگئے۔

۱۳۴۴ھ میں حضرت سہارنپوری کے ساتھ دوسرا سفر حج کیا، حضرت سہارنپوری ہجرت کی نیت سے تشریف لے گئے تھے، اس لیے شیخ کو چاروں سلسلوں سے خلافت عطا فرماکر واپس بھیجا، پھر تو آپ کی طرف لوگوں کا رجوعِ عام شروع ہوگیا، اس کے بعد تو جو بھی مربی وشیخ دنیا سے جاتا وہ اپنے متعلقین کو آپ کے سپرد کرجاتا اس لیے آنے جانے والوں کا آپ کے یہاں بڑا اژدحام رہتا تھا، نووارد دیکھ کر یہ سمجھتا کہ شاید آج کوئی تقریب ہے حالانکہ یہ روز مرہ کا معمول ہوتا تھا۔

ساتھ چلتا رہا، حدیث شریف کی امہات الکتب ہمیشہ آپ کے زیردرس رہیں، اس طرح تقریباً ۵۳سال آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں۔ آخر عمر میں آپ کو آنکھوں میں نزول ماء کی شکایت ہوگئی تھی، ۱۹۷۰ء میں دائیں آنکھ کا آپریشن علی گڑھ میںہوا،اسی علی گڑھ کے قیام میں آپ نے ’’آپ بیتی‘‘ املاکرائی۔

مدینہ طیبہ کا مستقل قیام اور وفات:

حضرت شیخ کی دیرینہ تمنا تھی کہ زندگی بھر جن کی محبت کادم بھرا اور ان کی سنت وشریعت اور حدیث شریف کی ساری عمر خدمت کی انھی کے جوار میں دفن کے لیے جگہ مل جائے، ایک سچے محب کے لیے محبوب کی قربت سے زیادہ پسندیدہ کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی، یہی تمنا لے کر شیخ نے ۱۸؍ربیع الاوّل ۱۳۹۳ھ مطابق ۱۹۷۳ء کو حجاز مقدس کا سفر کیا، اسی سفر میں آپ نے ہجرت کی نیت فرمائی اور تقریباً دس سال مدینہ طیبہ میں گذارے۔ اس دوران ہندوپاک، افریقہ وانگلینڈ وغیرہ کئی ممالک کے اسفار بھی کیے، لیکن مستقل قیام مدینہ طیبہ ہی میں رہا۔ بالآخر۲؍شعبان ۱۴۰۲ھ کو ایک طویل عرصہ بیمار رہنے کے بعد عصر ومغرب کے درمیان علم وعمل کا یہ پیکر اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملا۔

Copyright © 2021 Khadimul-Uloom All rights reserved.