آپ کا نام محمد حنیف والد کا نام میاںجی غلام محمد ہے، آپ کا وطن موضع ملک پور ضلع سہارنپور ہے، آبائی پیشہ کاشتکاری ہے، آپ کا سن ولادت آپ کے بیان کے مطابق ۱۹۲۲ء ہے۔
ابتداء سے شرح جامی تک آپ نے جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد دو سال دارالعلوم دیوبند میں مختصرالمعانی تک پڑھنے کے بعد مظاہرعلوم سہارنپور تشریف لے گئے، اور ۱۹۴۷ء میں یہیں سے فراغت حاصل کی۔ آپ کا بیعت وارشاد کاتعلق حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنیؒ سے تھا۔آپ اعلیٰ اخلاق کے حامل، صبرواستقامت کے پیکر، ریا وخودنمائی سے دور، عمل پیہم کے خوگر، تواضع واتباع سنت جیسے اوصاف عالیہ سے متصف ہیں۔
فراغت کے بعد آٹھ سال تک اپنے مادرِ علمی جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاج پورہ میںتدریسی خدمات انجام دینے کے بعد ۱۹۵۵ء میں انجمن گاڑہ کی طرف سے آپ کو خادم العلوم باغوں والی میں بحیثیت مہتمم بھیج دیا گیا۔ آپ نے جس حسن وخوبی، جدوجہد اور لگن سے مدرسے کی خدمت انجام دی اس کی نظیر مشکل ہے، اپنے ادارہ کی خدمت ملازمت سمجھ کر نہیں، بلکہ اپنا فرض سمجھتے ہوئے انجام دی اوراسے دل وجان سے محبوب رکھا، ہر پل اس کی تعمیر وترقی کے لیے کوشاں رہے، آپ نے مسلسل جدوجہد اور علمی وعملی محنت سے مدرسے کو چارچاند لگادئیے، تعلیمی و تعمیری ہراعتبار سے غیرمعمولی ترقی ہوئی، چناں چہدورِ اہتمام (وفات کے وقت) ناظرہ کے آٹھ، حفظ کے دس، فوقانیہ کے تین درجات (درجہ پانچ تک سرکاری نصاب کے مطابق) شعبۂ تجوید، شعبۂ عربی اول تا دورئہ حدیث شریف ، شعبۂ ادب عربی، شعبۂ کمپیوٹر: چھ تعلیمی شعبے قائم ہوچکے تھے۔آپ نے شعبوں کی کثرت سے زیادہ ان کے معیار پر توجہ مرکوز رکھی، چنانچہ اس گئے گذرے دور میں بھی مدرسہ خادم العلوم ٹھوس معیارِ تعلیم کے حوالے سے اپنا ایک ممتاز مقام رکھتا ہے
آںجناب کے دور میں تعمیراتی ترقی بھی بیحدہوئی، آپ سے پہلے چند کمرے تھے اوروفات کے وقت مدرسہ کی عمارت چھوٹے بڑے۲۴۷کمروں پر مشتمل تھی، جن میںکتب خانہ اور دارالحدیث جیسی(جو زیرتعمیرتھی) بڑی عمارتوں کے علاوہ وسیع وعریض دو منزلہ مسجد بھی شامل ہے،جس کی توسیع اور بالائی منزل کا کام آپ کے مبارک ہاتھوں تکمیل پذیر ہوا۔اپنے اخلاص و محبت اور مسلسل جدوجہد کے ذریعہ ۵۷ سال دورِ اہتمام میں عمل کا وہ نمونہ پیش کیاکہ پورا گائوں بلکہ پورا علاقہ آپ کا اسیر ہوگیاتھا۔
۲۲؍ صفر ۱۴۳۳ مطابق ۱۷؍ جنوری ۲۰۱۲ئ منگل کی شب مدرسہ خادم العلوم باغوںوالی کی تاریخ میں ایک ہنگامہ خیزرات تھی جس کو آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا ، مدرسہ ایک المناک اوراندوہناک حادثے سے دوچار ہوا، مدرسہ اپنے محسن و مربی سے محروم ہوگیا، ایک ایسے باغباں سے محروم ہو گیا جس نے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک اس چمن کی آبیاری کی ، ایک ایسے ناخداکو کھوبیٹھا جس نے اس کی کشتی کو ساحل ِمرادپہ لا کھڑا کیا ، ایک ایسے باپ سے ہاتھ دھوبیٹھا جو اپنے سارے بچوں کو اتحاد و یگانگت کی دعوت دیکر آگے بڑھنے کا حوصلہ بخشتا رہا ، لعل و جواہر سے لبریز ایک خاموش شخصیت جس کا ظاہر پر سکون سمندر لیکن باطن بحرزخار تھا ؛ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی، لیکن اپنے پیچھے ہزاروں کو سوگوار اور ماتم کناں چھوڑ گئی۔
دیکھنے والے کو یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ گوشت پوست کے اس ڈھانچے کے اندر ایک دھڑکتا ہوا دل چھپا ہوا ہے جو چارپائی پر خاموشی سے بیٹھا ہوا ’’جہاں بانی ‘‘ کا نقشہ بنا رہا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسا لال قلعہ تیار کر گیا جو کسی ’’شاہ ِ جہاں‘‘ کی یاد دلاتا رہے گا، ایک ایسا مینارۂ نور تیار کر گیا جو پوری دنیا کو پرُ نور بناتا رہے گا ۔
ایک ایسا انسان جس نے سکوت اور خاموشی کی زندگی بسر کی ، جو ہنگامہ آرائی، مجلس بازی، تعریف و ستائش ، اور نام ونمود کی دنیاسے کوسو ں دور تھا لیکن رخصت ہوا تو سیکڑوں انسانوں کو اپنا ثنا خواں اور مدح سرائی میں رطب اللسان کرگیااور کیوں نہ ہو خاصان خدا کی شان ہی یہی ہو تی ہے وہ جیتے ہیں دوسروں کے لیے، ان کی حیات مستعار دوسروں کے لیے وقف ہوتی ہے اس لیے دوسرے بھی ان کو اپنا سمجھتے ہیں۔
بے ربط وبے کیف سی یہ سطور جس شخصیت پر چسپاں ہوتی ہیں، دنیا اسے مدرسہ خادم العلوم باغوں والی کے طویل المیعاد مہتمم حضرت مولانا محمد حنیف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے۔جوجوانی ،کہولت اور بڑھاپے کو مدرسہ کی نذر کرگئے ، مدرسہ کی خدمت جن کا اوڑھنا بچھونا تھا، قوم کی خدمت جن کا مشن تھا ، تعلیم و تربیت جن کا سرمایۂ حیات تھا ، انہی کا ایک شعر یاد آیاجو اپنے آخری دور میں جلسوں اور پروگراموں میں کبھی کبھی سنایا کرتے تھے ۔
طفلی دیکھی شباب دیکھا ہم نے ٭ ٭زندگی کو مثلِ حباب دیکھا ہم نے
ایک باکمال شخصیت تھی ، سبق پڑھاتے تو پڑھا تے ہی رہتے تھے ، وقت ہی اپنی تنگ دامانی کا شکوہ کرنے لگتا تو بات اور ہے ، تقریر کرنے پر آتے تو گھنٹوں بولتے رہتے ، مجلسوں اور مٹنگوں میں نصیحت کر تے تو بات سے بات نکلتی جاتی ، خاموشی اختیار کرتے تو لگتا کہ بولنا ہی نہیں جانتے ، سادگی ایسی کہ رشک ملا ئک بن جائیں :لباس سادہ، گفتگو سادہ، ظاہر و باطن یکساں۔ غرض سادگی کا حسین پیکر ، اسی سادگی کے ساتھ اگر مدرسے کے صحن میں خاموش بیٹھ جاتے تو پرندوں کو گمان ہونے لگتا کہ یہ کوئی سو کھادرخت ہے جس کی شاخیں ٹوٹ کر گرچکی ہیں ، یہ منظر تو دیکھنے والوں کی نگاہوں میں اب بھی تازہ ہوگا کہ ایک چیل حضرت مولانا کی ٹوپی لیکر اڑگئی تھی۔
غرض اضداد کا حسین مرقع؛ایک جامع شخصیت دنیا سے رخصت ہوئی جس کے احسانات ایک مدرسہ اور ایک بستی ہی پر نہیں بلکہ پوری ملت پر ہیں ، بھلا ملت اپنے ایسے فرد فرید کو کیونکر بھلا سکے گی ۔
اللہ تعالیٰ اُن کو اپنی شایان ِشان جزائے خیر عطا فرمائے، اور جنت الفردوس میںاعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
Copyright © 2021 Khadimul-Uloom All rights reserved.