حضرت مولانا عبدالقادر صاحب رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کے آباء واجداد تھوہا محرم خاں تحصیل تلاگنگ ضلع کیمبل پور، پاکستان کے رہنے والے تھے، تقیم سے پہلے کیمبل پور مغربی پنجاب کا ایک ضلع تھا ، جو اس وقت پاکستان میں ہے۔
خود حضرت مولانا عبدالقادر صاحب یا آپ کے کسی بھائی یا رشتہ دار کو آپ کا سن ولادت تعیین کے ساتھ معلوم نہیں تھا، البتہ قرائن اور قیاسات سے اندازہ کرکے آپ کا سن ولادت (۱۲۹۰ھ - ۱۸۷۳ئ) کے آس پاس بیان کیاگیا ہے، آپ کے والد محترم نے آپ کا نام غلام جیلانی رکھا اور یہی نام آپ کا اس وقت تک رہا، جب آپ رائے پور حاضر ہوئے، آپ کے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب نے نام دریافت کیا تو آپ نے فرمایا غلام جیلانی؛ ارشاد ہوا آپ تو عبدالقادر ہیں، بس اسی وقت سے یہ نام مشہور ہوگیا، اگرچہ علاقہ کے اکثر لوگ غلام جیلانی ہی کے نام سے جانتے تھے اور کاغذات میں بھی یہی نام درج تھا۔
ابتدائی تعلیم، ناظرہ، حفظ قرآن اور کچھ عربی کی تعلیم اپنے وطن ہی میں حاصل کی، اس کے بعد دہلی اور اس کے اطراف کا رخ کیا، اس وقت دہلی اوراس کے اطراف کا علاقہ ہندوستان کا خاص علمی مرکز تھا، وہاں بڑے بڑے نامور اور جید علما موجود تھے جن سے پڑھنے کے لیے افغانستان، صوبہ سرحد اور پنجاب کے دور دراز علاقوں سے طالبین علوم نبوت کھنچ کھنچ کرچلے آتے تھے۔
آپ نے جب دہلی اوراس کے اطراف کے علمی مراکز میں تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے سہارنپور پہنچے، اس وقت مظاہر علوم سہارنپور میں مولانا ثابت علی صاحبؒ شرح جامی پڑھاتے تھے، مولانا کی شرح جامی بہت شہرئہ آفاق تھی، کابل وقندھار سے طلبہ مولانا سے شرح جامی پڑھنے کے لیے آتے تھے۔
آپ نے بھی مولانا ثابت علیؒ صاحب سے شرح جامی پڑھی اور مولانا احمد علی صاحبؒ محدث سہارنپوری کے صاحبزادے مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ سے بھی کچھ پڑھا، سہارنپور کے بعد آپ پانی پت تشریف لے گئے، وہاں کی شہرئہ آفاق شخصیت قاری عبدالرحمن صاحب سے قرأت پڑھنے کا شرف بھی حاصل کیا، پانی پت کے بعد آپ نے رامپور کا قصد فرمایا جہاںآپ نے منطق ومعقولات پڑھی، رامپور کی طالب علمی کا زمانہ بڑی مشقت اور جفا کشی میں گذرا، بسا اوقات کھانے کے لیے کچھ نہ ہوتا تو سبزی منڈی سے مولی وغیرہ کے پتے لے آتے اور کئی کئی روز انھیں پر گذر بسر کرتے۔ اس کے بعد آپ دہلی پہنچے جہاں آپ نے مدرسہ امینیہ میں مولانا عبدالعلیؒ اور مولانا سیدنذیر حسین دہلویؒ سے حدیث شریف پڑھی، اس کے علاوہ بھی آپ نے کئی ایک مقامات کاسفر کرکے اپنی علمی تشنگی کی سیرابی کا سامان کیا، آخر میں بانس بریلی میں آپ نے تعلیم کی تکمیل کی اور وہیں سب سے پہلے آپ نے ملازمت اختیار کی۔
ملازمت کے ابتدائی دور میں ہی آپ کا قلبی میلان حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوریؒ کی طرف ہوا آپ نے ان سے بیعت کی درخواست کی تو انھوں نے اولاً حضرت گنگوہی کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا، لیکن آپ نے فرمایا میرا دل تو آپ ہی کی طرف مائل ہے تو حضرت نے آپ کو اپنے حلقہ ارادت میں داخل فرمالیا، اس کے بعد اپنے وطن پاکستان تشریف لے گئے وطن سے واپسی پر رائے پور میں مستقل قیام کی نیت سے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سولہ سال تک برابر سفروحضر میں اپنے شیخ کے ساتھ رہے، رائے پور کے قیام میں بھی آپ نے عالی ہمتی، محنت وجفاکشی اور بڑے ہی مجاہدات سے کام لیا۔
شیخ کی وفات کے بعد آپ ہی اپنے شیخ کے قائم مقام ہوئے، آپ اپنے اخلاص، اعلیٰ اخلاق، شفقت ومحبت اپنے کام میں انہماک ویکسوئی کی وجہ سے بہت جلد مرجع خاص وعام بن گئے اور ۱۹۲۲ء سے ۱۹۶۲ء تک کے طویل چالیس سالہ عرصے میں بے شمار خلق خدا نے آپ سے استفادہ کیا، اصلاح و تبلیغ دین کی غرض سے آپ نے مشرقی ومغربی پنجاب رائے پور کے اطراف سہارنپور ومظفرنگر وغیرہ کے بہ کثرت اسفار فرمائے بعض اوقات ان اسفار میں مہینوں لگ جاتے، صدہا اشخاص بیعت و توبہ سے مشرف ہوتے، مدارس ومکاتب کا قیام عمل میں آتا۔
۱۹۶۲ء میں آپ نے اہل خانہ اور اعزہ واقارب کے مسلسل تقاضے پرپاکستان کا سفر کیا، علالت کا سلسلہ کئی سال سے جاری تھا، وطن جانے کے بعد مزید طبیعت بگڑگئی، کبھی مرض کی شدت میں اضافہ ہوجاتا، کبھی کچھ افاقہ، افاقہ ہونے پر آپ ہندوستان کی تمنا کا اظہار فرماتے، لیکن یہاں آنا مقدر میں نہ تھا۔ ۱۶؍اگست بروز جمعرات بوقت شب تقریباً ساڑھے گیارہ بجے آپ کا وصال ہوا۔
Copyright © 2021 Khadimul-Uloom All rights reserved.