حضرت مولانا جمیل احمد صاحب رحمۃاللہ علیہ مو ضع مجاہد پور ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے ۔جو شہر سہارنپور کے شمال میں وا قع ہے۔آپ کی پیدائش آپ کے آبا ئی وطن مو ضع مجاہد پور میں ۱۹۳۴ء میں ہو ئی ۔ آپ کا تعلق گاڑہ برادری سے ہے جو اس علا قہ کی مشہور برادریوں میں شمار ہو تی ہے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن ما لوف موضع مجاہد پور میںپا ئی ۔پھر اپنے علا قہ کے مشہور ادارے جامعہ اسلامیہ ریڑھی تا جپور ہ میں داخل ہوئے اور شعبۂ فار سی تک کی تعلیم وہیں حاصل کی اس کے بعد آپ علوم عالیہ کی تحصیل کے لیے مظاہرعلوم تشریف لے گئے اس وقت مظاہر علوم کے ناظم حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حکیم الامت حضرت تھا نوی قد س سرہ تھے جوبڑے جو ہر شناس ، ذی علم ، ہو شمند ، عابد و زاہد اور صاحب بصیرت انسا ن تھے ۔ حضرت نا ظم صاحب آپ پر بڑی شفقت اور توجہ فرماتے تھے ۔ اور ان کی یہ شفقت و توجہ ایک خاص وا قعہ سے جڑی ہو ئی تھی ۔
خود مو لانا علیہ الرحمہ فرمایا کر تے تھے کہ نا ظم صاحب ؒ کو اردو ادب کا بڑا ذوق تھا ۔ زبان کی تصحیح اور صحیح الفا ظ کے استعمال کا ان کے یہا ں خاص اہتمام تھا ۔ ایک دفعہ حضرت ناظم صاحب نے ہمارے درجہ کے طلبہ کو شعر کی ایک بحر دی اور فرمایا ’’ تم میں سے جو بنا سکے وہ کل اس طر ز پر اشعار بنا کر لائے ‘‘ مو لانا فر مایا کر تے تھے کہ طلبہ میں سے کوئی دوکوئی تین اور کوئی چار شعر بنا کر لے گیا ۔اور میں ا س طر ز پر چھیا لیس اشعار بنا کر لے گیا ۔
ناظم صاحب نے سب کے اشعا ر سنے اور گھنٹہ ختم ہو نے پر مجھے اپنے کمرے میں لے گئے اور فرما یا آج سے تمہارا کمرہ یہ ہے ۔تمہارا رہنا ،کھا نا پینا ہر کام یہیں ہو گا اور اپنی کتا بوں کی طرف اشارہ کر کے فرما یا یہ کتا بیں تمہارے مطا لعہ کے لیے ہیں ۔ مولانا فر ما تے ہیں کہ مظاہر علوم کا پورا دور حضرت نا ظم صاحب کی شفقتوں اور نوا زشوں میں گذرا ۔اور ۱۹۵۵ء میں وہیں سے فراغت حاصل کی ۔
فراغت کے بعد ابتد اً آپ مدرسہ قاسم العلوم تیوڑہ (مظفر نگر) میں مدرس مقرر ہو ئے ۔ دوسال تک وہیں درس دیتے رہے۔پھر ۱۹۵۷ ء میں حـضرت مہتمم صا حب کی کو ششوں سے مدرسہ خا دم العلوم باغو نوالی میں بحیثیت استاذ تجوید آپ کا تقرر عمل میں آیا ۔لیکن اللہ نے آپ کو مختلف وہبی صلا حیتوں سے نوا زا تھا ۔ آپ کی علمی صلاحیت ولیاقت بے مثال تھی ۔ بڑے بڑے علماء او ر اکابرین زمانہ نے اپ کی علمی صلا حیتوں کا اعتراف کیا ہے۔
متعدد دفعہ آپ کو دارالعلوم دیو بند کی طرف سے تدریس کی پیش کش کی گئی ۔ لیکن آپ ہمیشہ یہی فرماتے ’’ کہ دارالعلوم کو اور بہت سے اہل علم افراد مل جائیں گے ۔ لیکن خادم العلوم کو کون ملے گا ‘‘۔
آپ نے مدرسہ کے نظام کو مر تب کر نے نیز تعلیم کو صحیح خطوط پر لانے اور اس کو بہتر سے بہتر بنا نے کے لیے بڑی قربانیاں دیں ۔ او ر اپنی منتظمانہ و مدبرانہ صلا حیتوں کا بھر پور استعمال کیا ۔ انہیں صلا حیتوں کی وجہ سے آپ تقرر کے کچھ ہی دن بعد صدرمدرس اور ناظم تعلیمات کے اعلی عہدہ پر فائز ہو گئے اور تا حیات اسی عہدہ پر کام کر تے ہوئے اپنے محبوب حقیقی سے جاملے۔
آپ نہا یت کریمانہ اخلاق کے مالک تھے ۔ ہر آدمی سے خندہ پیشانی سے پیش آتے ، طلبہ کا بیحد خیال رکھتے ، غریب او ر نادار طلبہ کی خبر گیری کر تے اور وقت ضرورت ان کا تعاون بھی کرتے ۔ علوم اسلامیہ میں بڑی مہا رت رکھتے تھے ۔ حدیث ، تفسیر ، فقہ ، غرض ہر فن میں آپ کو گہری بصیرت کے ساتھ تفہیم کا بڑا اچھا ملکہ حاصل تھا ۔ وقت کی پا بندی ، درس میں بر وقت حاضری اور عبادات و تلاوتِ کلام پاک کا بڑا اہتمام کر تے تھے ۔ انتظامی امور میں مہا رت تا مہ حا صل تھی او ر ان خوبیوں وکمالات کے با وجود مدرسہ کی چہار دیواری میں نہا یت سادہ اور بے تکلف زندگی بسر کی ، کبھی شہر ت ، ریااور نام و نمود کی کو شش نہیں کی ، کبھی اپنے علم کی شہر ت اور نمائش کو روا نہیں سمجھا ۔ہمیشہ تصنعات اور تکلفات سے دور رہے ۔
در حقیقت آپ کی شخصیت مدرسہ خادم العلو م کے لیے ایک نعمت ِ غیر مترقبہ تھی آپ نے مدرسہ کی تعمیر و ترقی اور اس کے نظامِ تعلیم و تربیت کو مثالی بنانے کے لیے آپ نے زندگی وقف کردی تھی ۔ آپ نے جو کارنامے انجام دیئے وہ مدرسہ کی تاریخ کے نہا یت زریں باب ہیں جن کی تفصیل کا یہ مو قعہ نہیں آپ کی مسلسل جا نفشانی و عر ق ریزی نے مدرسہ کو ایک نئی توانائی بخشی اور بہت جلد امتیازی و انفرادی شان کا حامل بنادیا ۔
آپ کا بیعت و ارشاد کا تعلق حضر ت مو لانا شاہ عبدالقادر صاحب رائے پور یؒ (خلیفہ حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائپور ی قدس سرہ )سے تھا زمانۂ طالب علمی ہی سے آپ حضرت رائے پوری ؒ سے وا بستہ ہو گئے تھے ۔
۹۰؍ کی دہائی میں آپ نے حج ادا فرمایا ۔ اس کے بعد طبیعت خراب رہنے لگی وفات سے تقریبا ً دوسال پہلے علالت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ۔بہت سے امراض نے آپ کو گھیر لیا تھا ۱۹۹۵ء میں ایک دفعہ طبیعت اس قدر خرا ب ہوئی کہ بچنے کی امید نہ رہی لیکن اللہ نے شفا عطا فرمائی اور آپ کی صحت کا فی حد تک بحال ہو گئی ۔لیکن اب آپ کو شاید یہ احساس ہو گیا تھا کہ نہ معلوم کب اللہ کا حکم آجا ئے ۔ اس لیے آپ کبھی کبھی با غونوالی کے مشہور و قدیم شہیدوں والے قبرستان میں تشریف لے جاتے ۔اور وہا ں آپ اپنے لیے ایک جگہ طے فرما دی تھی ۔
۱۹۹۶ء میں دوبارہ مر ض کا حملہ ہو ا طبیعت میں اتار چڑھا ئو ہو تا رہا آخر ی وقت میں آپ پر خوف ورجاء کی کیفیت طاری تھی بار بار یہ فرماتے کہ نہ معلوم قبر میں کیا معاملہ پیش آئے گا ۔ یہی حالت چلتی رہی یہا ں تک کہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۹۶ء کو وہ وقت آہی گیا جس کا تمام وا بستگان کو اندیشہ تھا اور آپ بروز جمعرات بوقت شام ۴۰:۴ پر داعی ٔ اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے مالک حقیقی کے حضور میں جا پہنچے ۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون )
Copyright © 2021 Khadimul-Uloom All rights reserved.